قرآن کی روشنی میں ہدایت اور گمراہی : اللہ کے فیصلے اور راہِ راست کی پہچان
جو لوگ اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں کبھی ہدایت نہیں دیتا
( سورة النحل 104 )
حق کی پہچان
اللہ کس کو ہدایت دیتا ہےاور کسے گمراہ کرتا ہے؟
ہدایت اور گمراہی قرآن حکیم میں ایک بڑا اہم اور پیچیدہ موضوع ہے جس کےبارےمیں ایک بات عموما کہہ دی جاتی ہے کہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے تو پھر ہم اپنی ہدایت اور گمراہی کے ذمہ دار کیونکر ہوئے
یہ قرآن حکیم کی آیات سےسیاق و سباق سے ہٹ کر نکالا گیا ایک غلط مفہوم ہے جو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے
قرآن حکیم اپنے ایک حصے کی تفسیر دوسرے حصے سے کرتا ہے اور پوری بات تب ہی سمجھ میں آسکتی ہے جب کہ اسی موضوع سے متعلق قرآن کی دیگر آیات سے بھی رہنمائی لی جائے
بےشک اس میں کوئی شک نہیں کہ ہدایت و گمراہی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور کسی دوسرے کو اس پر کوئی اختیار نہیں لیکن اللہ کس کو گمراہ کرتا ہے اور کس کو ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے اور اس کے لیے اللہ کی طے شدہ سنت کیا ہے اور اس نے کونسا معیار مقرر فرما رکھا ہے جس ہدایت چاہیے اسے کیا کرنا چاہیے اور کوئی شخص یہ کیسے جانے گا کہ کہیں وہ گمراہی کے راستے پر تو نہیں یہ ہم آج کے مضمون میں قرآن حکیم سے جاننے کی کوشش کریں گے
1. سب سے پہلی اور بنیادی بات
سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ کہ ہدایت اور گمراہی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے کیونکہ کسی کے ہدایت یافتہ ہونے پر ہی اس کے لیے ابدی جنتوں کی نعمتیں ہیں اور جو گمراہی پر ہے اسے جہنم کا عذاب ملناہے
کسے جزا دینی ہے اور کسے سزا دینی ہے اس کی شروعات ہدایت یا گمراہی ملنےسے ہی ہوتی ہے اس لیے یہ فیصلہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کسے سیدھی راہ دکھا ئے گا اور کسے بھٹکائے گا
آیات ملاحظہ فرمائیے
اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے
(سورة الأنعام 39 )
اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ جسے چاہتاہے گمراہی میں ڈالتاہے اور جسے چاہتاہے راہِ راست دکھا دیتاہے اور تم سے ضرور تمہارے اعمال کی بازپرس ہو کر رہے گی
(سورة النحل93)
اس معاملے میں اللہ کا معیار ایسا سخت ہے کہ اپنی مخلوق کی بزرگ ترین ہستیوں یعنی اپنے انبیاء اور رسولوں کو بھی اس نے یہ اختیار نہیں دیا نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹے کی مثال، لوط علیہ السلام کی بیوی کی مثال، ابوالانبیاء ابراھیم علیہ السلام کے والد کی مثال اور امام الانبیاء سیدنا محمدﷺکے چچا جناب ابوطالب کی مثال ہمارے سامنے ہے اوردیکھیے ربّ کریم کی نازل کردہ ان آیات میں مخلوق میں اعلی ترین ہستی، افضل البشر،سید الانبیاءﷺ کو مخاطب کر کے کیا فرمایا جارہا ہے
اے نبی ﷺ آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں
(سورة القصص 56)
اے نبی ﷺ لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری آپ کی نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے
( سورة البقرة 272 )
اے نبی ﷺ آپ چاہے ان کی ہدایت کے کتنے ہی حریص کیوں نہ ہو مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتاہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا اور اس طرح کےلوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا
( سورة النحل 37 )
2. دوسری اہم بات
دوسری ضروری بات یہ کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ راہ راست سے بھٹکادے وہ کبھی سیدھی راہ نہیں پا سکتا
اللہ جسے گمراہی میں ڈال دے اسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں، اور جسے وہ ہدایت دے اسے بھٹکانے والا بھی کوئی نہیں
(سورة الزمر 36 ،37)
اور جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں
( سورة الرعد33 )
3- تیسری اہم بات
اللہ کی ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے؟
اس ضمن میں اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے اللہ کی ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے؟
تو اس کا جواب ہمیں یہ ملتا ہےکہ اللہ کی طرف سے جو پیغام اللہ کے نبی اور رسول علیھم السلام لاتے رہے وہی ہدایت کا اصل ذریعہ ہے اور آج کے دورمیں قرآن حکیم انسانوں کے لیےدرست رہنمائی کا ذریعہ(هُدًى لِّلنَّاسِ) اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت (هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ )ہے
اور جن کی طرف یہ نازل ہوا جو اس کے ابلاغ کے ذمہ دار ٹھہرے اور جنہوں نے اس کےمطابق انسانیت کی تعلیم و تربیت کی وہ ہمارے رسول ﷺ ہیں
تو ثابت ہوا کہ قرآن اور صاحب قرآن کی اطاعت و پیروی ہی ہدایت ہے
جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگر اسے تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے
اور فرمایا جناب نبیء رحمت ﷺ نے کہ تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن و دوسرے سنت انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو گمراہ نہ ہوگے اسی بارےمیں کچھ آیات بھی ملاحظہ فرمائیے:
ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب بھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھرا للہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، وہ بالا دست اور حکیم ہے
( سورة إبراهيم 4 )
اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں اسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کےجسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے
( سورة الزمر 23 )
اے نبیﷺ علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیاگیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے
( سورة سبأ 6 )
یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتاہے
( سورة الأنعام )
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ اُن لوگوں کو جو اُس کی رضاکے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف اُن کی رہنمائی کرتا ہے
( سورة المائدة 16،15)
اور یہ بھی کہ رسولﷺ کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف سے انسانیت کو اپنے پیغام پہنچانے اور لوگوں کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ کے لیے مامور فرمایا اسی لیے رسولﷺکی کامل اطاعت ہی ہدایت کےراستے کی پیروی ہے
پس اےنبیﷺ، آپ اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو نصیحت کیجیے جو میری تنبیہ سے ڈرے
( سورة ق 45 )
جس نے رسولﷺ کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی
( سورة النساء 80 )
اب درج ذیل آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ قرآن راہ ہدایت ہے لیکن کوئی فردخدا سے لاتعلق ہو کر اللہ سے ہدایت چاہے بغیر محض اپنے چاہنے پر اس سے ہدایت اورراہ راست نہیں حاصل کرسکتا اور یہ ضروری نہیں کہ اس کو پڑھنے والے ہر شخص کو اللہ ہدایت لازماً دے کتنے ہی لوگ اسے محض کوئی امتحان پاس کرنے کے لیے پڑھتےہیں امتحان تو پاس ہوجاتا ہےلیکن ہدایت نہیں ملتی کتنے ہی لوگ محض بحث مباحثے کے لیے لوگوں پر اپنی علمی برتری جتانے کے لیے یا اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کےحوالے دینے کے لیے اسے پڑھتے ہیں لیکن ہدایت نہیں ملتی
4. اہم ترین سوال
اللہ کس کو ہدایت دیتا ہے؟
اب جو اہم ترین سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ کہ آخر اللہ کس کو ہدایت دیتا ہے؟
یہاں بھی قرآن عظیم ہماری رہنما ئی کوموجود ہے
جواب دیا جاتا ہے کہ اللہ اس شخص کو ہدایت دیتا ہے جو اللہ کی باتوں پر ایمان لائے اور اللہ کی پناہ چاہتا ہو جو اپنی زندگی میں رہنمائی اور ہدایت کے لیے صرف اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ کی طرف پلٹے ہدایت کا سچا طالب ہو ہدایت پانےکے لیے راستہ بھی صحیح اختیار کرے یعنی قرآن و سنت کو تھام لےاور مزید یہ کہ دل کی گہرائیوں سےاللہ سے ہدایت مانگے
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا
( سورة النساء 175 )
کہو اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کودکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے
( سورة الرعد 27 )
اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کودکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے
( سورة الشورى 13)
جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لیے خوشخبری ہے
( سورة الزمر 17)
وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق نازل کرتا ہے مگران نشانیوں کے مشاہدے سےسبق صرف وہی شخص لیتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنےوالاہو
( سورة غافر 13 )
اور جو فرد ہدایت میں ترقی چاہتا ہواور اللہ کےقرب کی مزید راہوں کا متلاشی ہو اس کے لیے قرآن کا پیغام یہ ہے کہ جو اللہ کی خاطر مجاہدہ و کوشش و جدوجہد کرےگا اسے اللہ اپنی طرف آنے کے راستے دکھلائےگا
وہ احادیث بھی ذہن میں رہیں جن کے مطابق اگر کوئی اللہ کی طرف ایک بالشت جائے تو اللہ اس کی طرف دو بالشت بڑھتاہے اور اگر کوئی چل کر آئے تو اللہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے
بس یہ بات نگاہ میں رہے کہ مقصود صرف اللہ ہی ہو
اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے
( سورة العنكبوت 69 )
رجوع الی اللہ یعنی اللہ کی طرف پلٹنا سارے انبیاء کی مشترکہ خوبی ہے جس کا آغاز آدم علیہ السلام سے ہوتا ہے اور قرآن حکیم میں بہت سے انبیاء علیھم السلام کی اس خوبی کے بارے میں بارے میں بہت سی آیت آئی ہیں
چند حسب ذیل ہیں
اےنبیﷺ کہہ دو مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیاہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھیراؤں لہذا میں اُسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میں صرف اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں
( سورة الرعد 36 )
حقیقت میں ابراھیمؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا
( سورة هود 75 )
اور درج ذیل آیت میں تو پیروی و اطاعت کا ایک سنہری اصول بیان فرما دیا گیا کہ ہم کن لوگوں کی اطاعت کریں
تو حکم یہ ملا کہ اللہ اور اس کےرسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اسی دائرےمعروف میں رہ کر اس کی اطاعت کرو جو تمہیں اللہ کی طرف دعوت دے اللہ ہی کے در پر جھکائے جو خود بھی اللہ ہی کا بندہ ہواور جس کا اپنا رجوع اللہ ہی کی طرف ہو
پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیاہے
( سورة لقمان 15 )
5. دوسرا اہم سوال
اللہ کس کو ہدایت نہیں دیتا؟
اب اس موضوع کا دوسرا اہم سوال سامنےآتا ہے کہ اللہ کس کوہدایت نہیں دیتا ؟
اس بارےمیں اللہ کا کیا قاعدہ و قانون ہے ؟
کون بدنصیب لوگ ہیں جو خدائی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں اور جن کے مقدر میں لکھ دیاگیا ہےکہ وہ اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہیں گے کبھی روشنی انہیں نہ ملے گی ؟
آئیے قرآن سے پوچھ دیکھتے ہیں
اللہ ظالموں کو راہ ِراست نہیں دکھایا کرتا
( سورة البقرة 258 )
اورکافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے
( سورة البقرة 264 )
اللہ نافرمانی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا
( سورة المائدة 108)
جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم و ستم پر اتر آئے ہیں اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا اور انہیں کوئی راستہ بجز جہنم کے راستے کے نہ دکھائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ کے لیے یہ بہت آسان ہے
( سورة النساء 168،169)
جو لوگ اللہ کی آیت کو نہیں مانتے تو اللہ انہیں کبھی ہدایت یعنی صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے
( سورة النحل 104 )
اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرجانے والا اور کذاب ہو
( سورة غافر 28 )
خبردار دین خالص اللہ کا حق ہے
رہے وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتےہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں اللہ یقیناًان کےدرمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو
( سورة الزمر 3 )
میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیردونگا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائيں گے اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پرواہی کرتے رہے
( سورة الأعراف 146 )
یہ قرآن حکیم کی ان لوگوں کے متعلق محض چند ہی آیات کریمہ ہیں ورنہ آپ کو اسی نوع کے لوگوں کے متعلق قرآن حکیم میں درجنوں دیگر آیات مل جائیں گی
تو قرآن میں گنوا دیاگیا ہے کہ یہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا ہدایت نہیں دیتا
ظالم،فاسق ،نافرمان، کافر، تکبر اور بڑائی کرنےوالے،جھوٹے،اللہ پر جھوٹ گھڑنےوالے، حق کا انکار کرنےوالے، اللہ کی آیات سے اعراض کرنےوالے اور ان کو جھٹلانےوالے حد سے گزرنےوالے اور دوسروں پر ظلم و ستم کرنےوالے
ان صفات کے حامل لوگ اگر توبہ کر کے اللہ کی طرف نہ پلٹیں
اوریہ سارے کام چھوڑ کر اللہ سے ہدایت نہ مانگیں گے
تو ان اعمال کے ہوتے ہوئے وہ جو کچھ بھی کر لیں اللہ انہیں ہدایت نہیں دے گا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائیں اور ہمیں ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ فرمائیں آمین
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ